دوستو! آج کل کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر طرف معلومات کا سیلاب ہے، ہم سب اپنی پسندیدہ ویڈیوز، ڈرامے اور خبریں دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پردے کے پیچھے ان سب کو بنانے والے ہمارے میڈیا پروڈیوسرز کن مشکل حالات سے گزرتے ہیں؟ میں نے خود اس دنیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اور یقین مانیں، ان کا کام صرف کیمرے اور لائٹس کا کھیل نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ایسے اخلاقی موڑ بھی آتے ہیں جہاں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا پہاڑ توڑنے جیسا ہوتا ہے۔ سچ کو عوام تک پہنچانے اور مقبولیت حاصل کرنے کے درمیان کی باریک لکیر پر چلنا کسی فن سے کم نہیں۔ تو چلیے، آج اسی حساس موضوع کی گہرائی میں اترتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمارے میڈیا پروڈیوسرز کن اخلاقی چیلنجز سے گزرتے ہیں۔
سچ اور سنسنی کا توازن: میڈیا کا کٹھن امتحان

دوستو، جب میں نے اس فیلڈ میں قدم رکھا تھا، تو میرا سب سے بڑا خواب یہی تھا کہ میں سچ کو عوام تک پہنچاؤں، ان کے سامنے ہر معاملے کا وہ رخ پیش کروں جو شاید انہیں کہیں اور سے نہ مل سکے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، میں نے محسوس کیا کہ یہ سچ کی تلاش صرف ایک مثالی خیال نہیں، بلکہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور پر آج کل کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں ہر کوئی ’وائرل‘ ہونے کی دوڑ میں لگا ہے، سچ کی اہمیت اکثر سنسنی خیزی کے آگے دھندلا جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ایسے واقعے کی رپورٹنگ کرنی تھی جو بہت جذباتی نوعیت کا تھا، اور میرے آس پاس کے کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ اگر ہم اس میں تھوڑی مرچ مصالحہ لگا دیں تو یہ خبر بہت زیادہ دیکھی جائے گی۔ میں نے اس وقت بہت غور و فکر کیا کہ کیا مجھے صرف زیادہ ویوز کے لیے حقیقت سے ہٹنا چاہیے؟ مجھے اپنا ضمیر کچوکے لگا رہا تھا اور آخر کار میں نے وہی پیش کیا جو سچ تھا، بھلے ہی اس پر ویوز شاید اتنے زیادہ نہ آئیں۔ یہ ایک ایسی کشمکش ہے جس سے ہر میڈیا پروڈیوسر کو ہر روز گزرنا پڑتا ہے، اور یقین کریں یہ آسان نہیں ہوتا۔ سچ اور مقبولیت کے بیچ کی یہ باریک لکیر عبور کرنا ہی اس پیشے کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
حقیقت کی جستجو میں
حقیقت کی جستجو کرنا، اسے سمجھنا اور پھر اسے بغیر کسی ردوبدل کے لوگوں کے سامنے پیش کرنا، یہ ایک پروڈیوسر کا بنیادی فرض ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خبروں کی گہرائی میں اترتے اور انہیں ہر زاویے سے پرکھتے ہوئے گزارا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ایک خبر کو بنانے میں صرف اس کے ظاہری پہلو کو دیکھنا کافی نہیں، بلکہ اس کے پس پردہ محرکات اور اس سے جڑے تمام حقائق کو کھوجنا پڑتا ہے۔ ایک بار ایک بڑے سیاسی اسکینڈل کی تحقیقات کر رہا تھا، مجھے کچھ ایسی معلومات ملی تھیں جو بہت ہی حساس تھیں اور اگر میں انہیں فوراً نشر کر دیتا تو مجھے بہت شہرت ملتی۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ اس کے پیچھے کچھ اور کہانی ہے، تو میں نے مزید دنوں تک ریسرچ کی اور آخر کار اس کا ایک اور پہلو سامنے آیا جو پہلے سے مکمل طور پر مختلف تھا۔ وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب میرا کام سراہا گیا کیونکہ میں نے جلدی نہیں کی اور سچ کو ہر قیمت پر ڈھونڈ نکالا۔
مقبولیت کی دوڑ کا دباؤ
آج کے دور میں جب ہر پلیٹ فارم پر لاکھوں ویڈیوز اور خبریں موجود ہیں، مقبولیت حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ہم پر اکثر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ ہم ایسی چیزیں بنائیں جو فوری طور پر وائرل ہو جائیں، لوگ اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، تاکہ ہمارے چینل یا ہمارے پروگرام کی ریٹنگز بڑھیں۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ بعض اوقات مقبولیت کی اس دوڑ میں، کچھ لوگ اخلاقیات کی حدود کو پار کر جاتے ہیں۔ وہ ایسی سرخیاں لگاتے ہیں جو گمراہ کن ہوتی ہیں، یا پھر ایسے مواد کو پیش کرتے ہیں جس میں سنسنی خیزی تو بہت ہوتی ہے لیکن حقیقت کم۔ مجھے اس پر ہمیشہ دکھ ہوتا ہے کیونکہ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ وقتی مقبولیت تو شاید مل جائے لیکن عوام کا اعتماد کھو دیا جائے تو اسے واپس لانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہمارے جیسے لوگوں کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ ہمارا کام صرف معلومات دینا نہیں، بلکہ اعتماد کو قائم رکھنا بھی ہے۔
پیسے کا کھیل اور ہماری ذمہ داری: اسپانسرز کے اخلاقی تقاضے
میڈیا انڈسٹری میں رہتے ہوئے، ہم سب جانتے ہیں کہ پیسہ کتنا اہم ہے۔ بجٹ، اسپانسرز، اشتہارات—یہ سب ہماری صنعت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ لیکن میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب بات مالی معاونت کی آتی ہے، تو اخلاقی چیلنجز بھی سر اٹھانے لگتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک بڑے برانڈ کا اشتہار میرے پروگرام میں شامل ہونا تھا، اور ان کی شرط یہ تھی کہ ہم ان کی مصنوعات کے بارے میں ایک خاص مثبت رائے اپنے پروگرام میں ضرور شامل کریں۔ یہ بات میرے لیے ایک سرخ جھنڈا تھی، کیونکہ میرا مقصد ہمیشہ غیر جانبدارانہ اور سچی معلومات دینا رہا ہے۔ میں نے بہت بحث کی، یہاں تک کہ اپنے سینئرز سے بھی اس بارے میں بات کی۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کیا میں اپنی پیشہ ورانہ دیانتداری پر سمجھوتہ کروں یا ایک بڑے اسپانسر کو کھو دوں۔ میں نے آخر کار فیصلہ کیا کہ میں اپنی دیانتداری کو ترجیح دوں گا، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ یہ میرے لیے ایک سبق تھا کہ مالی دباؤ کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہنا کتنا ضروری ہے۔
اشتہارات کا دباؤ اور آزادی
اشتہارات ہمارے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے بغیر کوئی بھی میڈیا ہاؤس زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا۔ لیکن اس مالی مدد کے ساتھ ایک بڑا دباؤ بھی آتا ہے: آزادی پر سمجھوتہ۔ میں نے اپنے کیریئر میں کئی بار یہ محسوس کیا ہے کہ جب کوئی بڑا اشتہار دینے والا کسی پروگرام کو اسپانسر کرتا ہے، تو اکثر یہ امید کی جاتی ہے کہ اس پروگرام کا مواد کسی نہ کسی طرح سے ان کے حق میں ہو۔ یہ ایک بہت ہی نازک صورتحال ہوتی ہے جہاں ایک طرف آمدنی کا مسئلہ ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی صحافتی آزادی کو برقرار رکھنے کا چیلنج۔ میرے خیال میں یہ ہر پروڈیوسر کے لیے ایک اخلاقی کٹھن امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس دباؤ کو ہینڈل کرتا ہے اور اپنے کام کی شفافیت کو برقرار رکھتا ہے۔ مجھے ایک بار ایک ایسے اشتہاری معاہدے کو ٹھکرانا پڑا تھا جو بہت منافع بخش تھا، صرف اس لیے کہ وہ میرے مواد پر کنٹرول چاہتے تھے، اور میں نے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
پوشیدہ پروموشن کا خطرہ
پوشیدہ پروموشن، جسے ’پلے سمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، آج کل بہت عام ہو گیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ جب ایک پروڈیوسر کسی برانڈ کی تشہیر اپنے پروگرام کے اندر اس طرح سے کرتا ہے کہ دیکھنے والے کو پتہ ہی نہ چلے کہ یہ اشتہار ہے، تو یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر کوئی اشتہار ہے تو اسے واضح طور پر بتایا جائے کہ یہ اسپانسرڈ مواد ہے۔ ایک بار میں نے ایک سیریز بنائی تھی جہاں کہانی کے کردار ایک خاص برانڈ کی مصنوعات استعمال کر رہے تھے، لیکن میں نے صاف طور پر بتایا کہ یہ برانڈ نے اسپانسر کیا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ شفافیت ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے، کیونکہ عوام اتنے نادان نہیں کہ وہ اس طرح کی چیزوں کو پکڑ نہ سکیں۔ انہیں صاف ستھرا مواد چاہیے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں وہی دیں۔
ذاتی معلومات اور رازوں کا احترام: پرائیویسی کا پاس رکھنا
میڈیا میں کام کرتے ہوئے، ہمیں اکثر لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں جھانکنا پڑتا ہے، چاہے وہ خبروں کے ذریعے ہو یا کسی ڈاکومنٹری کے ذریعے۔ لیکن میرا ذاتی فلسفہ یہ رہا ہے کہ کسی بھی انسان کی پرائیویسی کا احترام سب سے اہم ہے۔ میں نے اپنے کیریئر میں کئی ایسے موقعے دیکھے ہیں جب کسی فرد کی نجی معلومات کو سنسنی خیزی کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن میں نے ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک مشہور شخصیت سے متعلق ایک بہت ہی نجی معاملے کی خبر لیک ہوئی تھی۔ میرے پاس تمام معلومات تھیں، اور اگر میں اسے نشر کر دیتا تو میرا پروگرام بہت زیادہ دیکھا جاتا۔ لیکن میں نے سوچا کہ اس کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا میری اخلاقی ذمہ داری کے خلاف ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس خبر کو کسی صورت نشر نہیں کروں گا۔ میرا ماننا ہے کہ خبر بنانے اور کسی کی زندگی میں دخل اندازی کرنے کے درمیان ایک واضح فرق ہونا چاہیے۔ ایک پروڈیوسر کا کام صرف معلومات دینا نہیں، بلکہ انسان کی حرمت کا خیال رکھنا بھی ہے۔
خبر اور فرد کی حرمت
ہم جب بھی کسی شخص کی کہانی بیان کرتے ہیں، چاہے وہ عام انسان ہو یا کوئی مشہور شخصیت، اس کی ذاتی حرمت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ میں نے کئی بار یہ دیکھا ہے کہ خبروں کی دوڑ میں یا زیادہ ریٹنگز حاصل کرنے کی خواہش میں، کچھ لوگ کسی فرد کی ذاتی زندگی کو سرعام کر دیتے ہیں، جس سے اس شخص کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ایسے واقعے کی رپورٹنگ کر رہا تھا جہاں ایک عام خاندان کو ایک بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ میں ان کی تکلیف کو نمایاں کروں لیکن ان کی نجی زندگی کے ایسے پہلوؤں کو منظر عام پر نہ لاؤں جو ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنیں۔ میرے تجربے کے مطابق، ایک اچھا پروڈیوسر وہ ہے جو خبر کی گہرائی میں جائے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اخلاقی حدود کو بھی پار نہ کرے۔
حساس معاملات کی حد
کچھ معاملات اتنے حساس ہوتے ہیں کہ انہیں پیش کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، بچوں سے متعلق خبریں، صنفی تشدد، یا نفسیاتی مسائل۔ میں نے ان موضوعات پر کام کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مواد کو اس طرح سے پیش کیا جائے جو متاثرین کی شناخت کو ظاہر نہ کرے اور انہیں مزید صدمے سے بچائے۔ یہ وہ اخلاقی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ میڈیا کا ایک لفظ کسی کی زندگی پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دستاویزی فلم بناتے ہوئے میں نے ایک متاثرہ شخص کا انٹرویو لیا تھا اور اس کی شناخت کو مکمل طور پر خفیہ رکھا تھا، حالانکہ وہ خود سامنے آنے کو تیار تھا۔ میں نے سوچا کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں اسے کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچاؤں، اور یہی میں نے کیا۔
معاشرتی اثرات اور ہمارا کردار: پیغام کی طاقت
میڈیا کے طور پر، ہم صرف خبریں نہیں دیتے، بلکہ ہم معاشرے کو ایک پیغام دیتے ہیں، ایک سمت دیتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک اچھی دستاویزی فلم یا ایک جامع رپورٹ کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، یہ بھی سچ ہے کہ ایک غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ پورے معاشرے میں افراتفری پھیلا سکتی ہے یا غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہتی ہے کہ میرا کام محض ایک پروگرام بنانا نہیں، بلکہ اس کے معاشرتی اثرات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ایک بار میں نے ایک ایسے معاشرتی مسئلے پر پروگرام بنایا جس میں بہت منفی پہلو تھے، لیکن میں نے کوشش کی کہ اس کے حل بھی پیش کروں اور لوگوں کو امید دوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس پروگرام کے بعد کئی لوگوں نے مثبت اقدامات اٹھائے۔ میرا ماننا ہے کہ ایک پروڈیوسر کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا کام صرف خبر کو پیش کرنا نہیں، بلکہ ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
نوجوانوں پر اثرات
آج کل کے نوجوان سب سے زیادہ میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں، اس سے ان کی سوچ اور شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہوں کہ میرا مواد ایسا ہو جو نوجوانوں کو صحیح سمت دے، انہیں مثبت سوچ پر ابھارے اور انہیں ذمہ دار شہری بننے میں مدد کرے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک پروگرام بناتے وقت، میں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ اس میں کوئی ایسا مواد نہ ہو جو نوجوانوں کو گمراہ کرے یا تشدد پر اکسائے۔ اس کی جگہ میں نے اس میں تعلیمی اور معلوماتی پہلوؤں کو نمایاں کیا تاکہ وہ کچھ نیا سیکھ سکیں۔ میرے تجربے کے مطابق، اگر ہم اپنے مواد میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے تو نوجوان نسل بھی اس سے مثبت اثرات لے گی۔
مثبت رپورٹنگ کی اہمیت
ہم اکثر منفی خبروں اور مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اور یہ ضروری بھی ہے۔ لیکن میرے خیال میں مثبت رپورٹنگ بھی اتنی ہی اہم ہے۔ معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ، واقعات اور اقدامات بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں اور انہیں امید دے سکتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ صرف مسائل اجاگر کرنے سے حل نہیں ملتا، بلکہ حل کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک بار میں نے ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں کی کہانی رپورٹ کی جہاں کے لوگوں نے مل کر اپنے مسائل خود حل کیے تھے۔ وہ پروگرام بہت مقبول ہوا اور کئی دوسرے علاقوں کے لوگوں نے بھی اس سے متاثر ہو کر ویسے ہی اقدامات اٹھائے۔ یہ مجھے بہت خوشی دیتا ہے کہ میرا کام لوگوں کو صرف خبریں نہیں دیتا، بلکہ انہیں تحریک بھی دیتا ہے۔
جعلی خبروں کی جنگ: ایک نیا چیلنج

آج کے دور میں، جب ہر ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور سوشل میڈیا پر ہر منٹ ہزاروں خبریں شیئر ہو رہی ہیں، جعلی خبریں ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھری ہیں۔ میں نے خود یہ دیکھا ہے کہ کس طرح ایک جھوٹی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور بعض اوقات اس کے بہت سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بطور پروڈیوسر، میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں صرف تصدیق شدہ معلومات ہی عوام تک پہنچاؤں۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ایسے واقعے کی خبر بہت تیزی سے پھیل رہی تھی جس کی تصدیق میرے ذرائع سے نہیں ہو رہی تھی۔ مجھ پر بہت دباؤ تھا کہ میں بھی اسے نشر کر دوں تاکہ پیچھے نہ رہ جاؤں، لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب تک پوری طرح سے حقائق سامنے نہیں آئے، میں نے اسے نشر نہیں کیا۔ میرا ماننا ہے کہ میڈیا پر لوگوں کا اعتماد اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب ہم ہر خبر کی تصدیق کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ یہ ایک مشکل جنگ ہے، لیکن ہم جیسے لوگوں کو یہ ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔
غلط معلومات کا پھیلاؤ
غلط معلومات کا پھیلاؤ آج کل ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کو گمراہ کر سکتا ہے۔ میں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح ایک غلط معلومات کی بنیاد پر لوگ کسی شخص یا گروہ کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔ میرے کیریئر میں، میں نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ جو بھی مواد میں بناؤں وہ حقائق پر مبنی ہو اور اس میں کسی بھی قسم کی غلط معلومات نہ ہو۔ مجھے ایک بار ایک ایسے پروگرام کو روکنا پڑا تھا جس میں کچھ ایسی معلومات تھیں جو مکمل طور پر مصدقہ نہیں تھیں۔ بھلے ہی اس سے مجھے کچھ نقصان ہوا لیکن میرے اصولوں کے مطابق یہ صحیح فیصلہ تھا۔
تصدیق کا عمل کیوں ضروری ہے؟
خبروں کی تصدیق کا عمل کسی بھی پروڈیوسر کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، آج کل کے پرفتن دور میں جہاں ہر خبر پر شک کیا جا سکتا ہے، وہاں تصدیق کے بغیر کوئی بھی خبر نشر کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اس بات کا پابند کیا ہے کہ ہر خبر کو کم از کم دو یا تین مختلف ذرائع سے تصدیق کروں۔ یہ ایک وقت طلب کام ضرور ہے، لیکن یہ میرے لیے اطمینان کا باعث ہوتا ہے کہ میں جو کچھ بھی لوگوں کو بتا رہا ہوں وہ سو فیصد سچ ہے۔ عوام ہم پر اس لیے اعتماد کرتے ہیں کہ ہم انہیں درست معلومات دیں گے، اور یہ اعتماد صرف تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب ہم تصدیق کے عمل کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔
خبر پہلے دینے کی دوڑ: احتیاط کا دامن
آج کل کا میڈیا ایک ایسی ریس ٹریک بن چکا ہے جہاں ہر چینل یا بلاگ سب سے پہلے خبر دینے کی کوشش میں ہے۔ میں نے خود اس دباؤ کو محسوس کیا ہے کہ جیسے ہی کوئی بڑی خبر آتی ہے، تو ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہی سب سے پہلے اسے بریک کرے۔ لیکن میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اس جلدی میں اکثر غلطیاں ہو جاتی ہیں، اور کبھی کبھی بہت بڑی غلطیاں۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک اہم سیاسی اعلان ہونا تھا، اور میرے کچھ ساتھیوں نے چاہا کہ ہم اندازوں کی بنیاد پر ہی خبر چلا دیں۔ میں نے انہیں روکا اور کہا کہ جب تک سرکاری اعلان نہیں ہو جاتا، ہم صرف ممکنہ صورتحال پر بات کریں گے۔ یہ میری ہمیشہ کی پالیسی رہی ہے کہ اگر خبر دینے میں چند منٹ کی دیر ہو جائے، لیکن وہ خبر صحیح ہو، تو یہ بہتر ہے کہ جلدی میں غلط خبر دے دی جائے۔ یہ ایک ایسا اخلاقی اصول ہے جس پر میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا، کیونکہ عوام کا اعتماد میرے لیے سب سے قیمتی ہے۔
تیزی اور درستی کے درمیان
تیزی اور درستی، یہ دو ایسے پہلو ہیں جو اکثر ایک دوسرے کے مخالف چلتے ہیں۔ میرے تجربے میں، یہ ایک بہت ہی کٹھن امتحان ہوتا ہے کہ ہم کس طرح تیز رفتار ماحول میں بھی درستی کو برقرار رکھیں۔ ایک اچھے پروڈیوسر کی پہچان یہ ہے کہ وہ خبر کو جلد از جلد پہنچائے لیکن اس کی حقیقت سے نظر نہ ہٹائے۔ میں نے اپنے کیریئر میں اس توازن کو برقرار رکھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ ایک بار میں نے ایک اہم واقعے کی براہ راست کوریج کرنی تھی، اور وہاں حالات بہت تیزی سے بدل رہے تھے۔ مجھ پر دباؤ تھا کہ میں ہر بدلتی صورتحال کو فوراً نشر کروں، لیکن میں نے ایک لمحے کے لیے رک کر حقائق کو پرکھا اور پھر درست معلومات دی۔ یہ فیصلہ ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
جذباتی ردِعمل سے بچاؤ
خبروں کی دوڑ میں بعض اوقات پروڈیوسر جذباتی ہو کر یا جلدی میں ایسا مواد پیش کر دیتے ہیں جس سے معاشرے میں غلط فہمی یا اضطراب پھیلتا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اس بات کا پابند کیا ہے کہ خبر دیتے وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھوں اور صرف حقائق پر مبنی معلومات دوں۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ایسے واقعے کی کوریج ہو رہی تھی جہاں لوگوں میں بہت غم و غصہ تھا۔ میری ٹیم کے کچھ ارکان بھی جذباتی ہو رہے تھے، لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ ہمارا کام صحافیانہ اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہوئے خبر دینا ہے، نہ کہ جذبات کو ہوا دینا۔ میرا ماننا ہے کہ ایک ذمہ دار پروڈیوسر ہمیشہ اپنے کام میں غیر جانبداری اور معروضیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
حساس موضوعات کی پیشکش: اخلاقی حدیں
میڈیا میں بعض ایسے موضوعات ہوتے ہیں جو انتہائی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ انہیں پیش کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط اور ذمہ داری کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے اپنے کیریئر میں ایسے کئی مواقع دیکھے ہیں جہاں حساس موضوعات کو غلط طریقے سے پیش کرنے پر معاشرے میں شدید ردعمل آیا اور بہت سے لوگ مجروح ہوئے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک دستاویزی فلم بنانی تھی جو معاشرتی برائیوں پر مبنی تھی۔ یہ بہت ہی حساس موضوع تھا اور میں جانتا تھا کہ اگر اسے صحیح طریقے سے پیش نہ کیا گیا تو یہ غلط تاثر دے سکتی ہے۔ میں نے اس موضوع پر بہت تحقیق کی اور ایسے ماہرین سے مشاورت کی جو ان معاملات کو سمجھتے تھے۔ میں نے فلم کو اس انداز میں بنایا کہ وہ لوگوں میں آگاہی پیدا کرے لیکن کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ میرے لیے یہ ہمیشہ اہم رہا ہے کہ حساس موضوعات کو اس طرح سے پیش کیا جائے کہ وہ تعمیری ہوں اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لائیں۔
دردناک واقعات کی رپورٹنگ
جب بھی کوئی دردناک واقعہ پیش آتا ہے، جیسے کوئی حادثہ، آفت یا جرم، تو میڈیا کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح ایک دردناک واقعے کی بے ہودہ کوریج متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتی ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ایسے واقعات کی رپورٹنگ کرتے وقت، میں انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کروں اور متاثرین کی نجی زندگی کا احترام کروں۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک بڑے حادثے کی کوریج کے دوران، کچھ رپورٹرز متاثرین کی چیخ و پکار اور ان کے شدید جذباتی لمحات کو براہ راست دکھا رہے تھے، لیکن میں نے اپنی ٹیم کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔ میرے خیال میں، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خبر دیں، لیکن اخلاقی حدود کو پار نہ کریں۔
معاشرتی روایات کا خیال
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس کی اپنی روایات، اقدار اور حساسیتیں ہوتی ہیں۔ بطور پروڈیوسر، ہمیں ہمیشہ ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ میرے نزدیک، یہ ایک بہت اہم اخلاقی اصول ہے کہ ہم ایسا مواد پیش نہ کریں جو ہماری معاشرتی روایات یا مذہبی اقدار کے منافی ہو۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ڈرامہ سیریل بناتے ہوئے کچھ ایسے مناظر شامل کیے گئے تھے جو ہماری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ میں نے فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کی اور ان مناظر کو ہٹا دیا گیا۔ میرا ماننا ہے کہ میڈیا کو معاشرے کا آئینہ ہونا چاہیے، لیکن ایک ایسا آئینہ جو مثبت اور تعمیری رخ دکھائے، نہ کہ منفی یا متنازعہ۔
یہاں میڈیا پروڈیوسرز کے اخلاقی چیلنجز کو ایک نظر میں دیکھتے ہیں:
| چیلنج کا پہلو | پروڈیوسر کی اخلاقی ذمہ داری | ذاتی تجربہ/تجاویز |
|---|---|---|
| سچ اور سنسنی کا توازن | حقیقت پرستی کو ترجیح دینا، سنسنی خیزی سے گریز۔ | زیادہ ویوز کے لیے سچ سے سمجھوتہ نہ کریں۔ |
| مالی دباؤ اور اسپانسرز | صحافتی آزادی اور غیر جانبداری برقرار رکھنا۔ | مادی فائدے پر اخلاقی اصولوں کو فوقیت دیں۔ |
| ذاتی معلومات اور پرائیویسی | افراد کی حرمت اور نجی معلومات کا احترام۔ | حساس معاملات میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ |
| معاشرتی اثرات | معاشرتی بھلائی اور مثبت پیغام کو فروغ دینا۔ | اپنے مواد کے معاشرتی اثرات کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ |
| جعلی خبریں | ہر خبر کی مکمل تصدیق کو یقینی بنانا۔ | تصدیق کے بغیر کوئی خبر نشر نہ کریں۔ |
| خبر دینے کی دوڑ | تیزی سے زیادہ درستی کو اہمیت دینا۔ | جلدی میں غلط خبر دینے سے گریز کریں۔ |
| حساس موضوعات | معاشرتی و ثقافتی اقدار کا احترام۔ | ایسے مواد سے بچیں جو کسی کی دل آزاری کرے۔ |
آخر میں
دوستو، میڈیا کی دنیا ایک سمندر ہے، جس کی گہرائیوں میں جہاں سچ کی روشنی چھپی ہے، وہیں سنسنی خیزی کی لہریں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔ ایک پروڈیوسر کے طور پر، میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ میں سچائی کی تلاش میں ایمانداری کا دامن نہ چھوڑوں، بھلے ہی اس کے لیے مجھے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے۔ مجھے یقین ہے کہ عوام کا اعتماد ہی ہماری سب سے بڑی دولت ہے، اور یہ اعتماد صرف تب ہی قائم رہ سکتا ہے جب ہم ہر قیمت پر اخلاقی اصولوں پر قائم رہیں۔ یاد رکھیے، آپ کی چھوٹی سی کوشش بھی معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔
کچھ کارآمد باتیں
1. اپنی اخلاقیات پر سمجھوتہ نہ کریں: مالی دباؤ یا زیادہ مقبولیت کی دوڑ میں اپنے بنیادی اصولوں سے کبھی نہ ہٹیں۔ آپ کا ضمیر ہی آپ کا سب سے بڑا رہنما ہے۔ اپنے تجربے سے میں نے سیکھا ہے کہ وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن دیرپا کامیابی اور لوگوں کا اعتماد اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب آپ ایمانداری پر قائم رہیں۔
2. ہر خبر کی تصدیق ضرور کریں: سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں جھوٹی خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ جو بھی معلومات شیئر کریں وہ 100 فیصد سچ ہو۔ ہمیشہ اپنے ذرائع کو پرکھیں اور حقائق کی تصدیق کے بعد ہی کوئی بات آگے بڑھائیں۔ میں ذاتی طور پر کم از کم دو آزاد ذرائع سے خبر کی تصدیق کیے بغیر کبھی اسے شائع نہیں کرتا۔
3. عوام کے اعتماد کو ترجیح دیں: آپ کے سامعین آپ پر اعتماد کرتے ہیں کہ آپ انہیں درست اور غیر جانبدارانہ معلومات فراہم کریں گے۔ اس اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جب آپ یہ اعتماد کماتے ہیں تو آپ کا ہر پیغام زیادہ مؤثر بن جاتا ہے اور آپ کی بات کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے میں نے کئی سالوں میں آپ سب کا اعتماد جیتا ہے۔
4. مثبت اور تعمیری مواد پیش کریں: منفی خبریں ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے والا، تعمیری اور معلوماتی مواد بھی پیش کریں۔ ایسے لوگوں کی کہانیاں سنائیں جو دوسروں کے لیے مثال بن سکیں اور لوگوں کو امید دے سکیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمیں صرف مسائل نہیں دکھانے بلکہ ان کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہیے۔
5. ذاتی معلومات اور رازداری کا احترام کریں: خبریں بناتے وقت یا کہانی سناتے وقت، افراد کی نجی زندگی اور ان کی ذاتی معلومات کا پورا احترام کریں۔ سنسنی خیزی کے لیے کسی کی پرائیویسی کو پامال نہ کریں۔ یہ ایک انسانی ذمہ داری ہے جو ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ کتنی بار میں نے صرف لوگوں کی رازداری کا خیال رکھنے کے لیے کچھ ایسی معلومات شائع نہیں کی جو مجھے بہت مقبول بنا سکتی تھیں۔
اہم نکات کا خلاصہ
ہم نے دیکھا کہ ایک میڈیا پروڈیوسر کے طور پر سچ اور سنسنی خیزی کے درمیان توازن قائم رکھنا، مالی دباؤ میں بھی اپنی صحافتی آزادی کو برقرار رکھنا، افراد کی پرائیویسی کا احترام کرنا اور معاشرے پر اپنے کام کے مثبت اثرات مرتب کرنا کتنا اہم ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں جعلی خبروں سے بچنا اور خبر پہلے دینے کی دوڑ میں درستی کو اہمیت دینا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم ان اخلاقی تقاضوں پر قائم رہیں تو نہ صرف ہم ایک بہتر میڈیا مواد تخلیق کر پائیں گے بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ آپ کا ایک درست اور سچا قدم ہزاروں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: میرے پیارے دوستو، آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ایک میڈیا پروڈیوسر سچ کو سامنے لانا چاہتا ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ عوام سنسنی خیزی کی طرف زیادہ مائل ہے، تو وہ اس کشمکش میں کیسے پھنس جاتا ہے؟ سچائی اور ریٹنگز کے اس دباؤ کو وہ کیسے ہینڈل کرتے ہیں؟
ج: اوہ، یہ تو وہ سوال ہے جو مجھے اکثر پریشان کرتا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں اس شعبے میں نیا نیا آیا تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ سچ ہمیشہ سچ ہی رہتا ہے، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ لیکن میرے دوستو، اس دنیا میں قدم رکھتے ہی مجھے پتا چلا کہ کہانی اتنی سیدھی نہیں ہے۔ ایک پروڈیوسر کو ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی چیز لوگ دیکھیں بھی سہی۔ اگر ریٹنگز نہیں آئیں گی، تو چینل کو نقصان ہوگا، سپانسرز ناراض ہوں گے، اور بالآخر اس کی اپنی نوکری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ایسے میں، سچ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا تو کوئی بھی باضمیر شخص نہیں چاہے گا، لیکن اسے ایسے انداز میں پیش کرنا پڑتا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کے لیے دلچسپ بھی ہو۔ بعض اوقات، ایک چھوٹی سی تفصیل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا پڑتا ہے یا کہانی کو تھوڑا سا “مسالہ دار” بنانا پڑتا ہے۔ یہ ایک بہت باریک لکیر ہے جس پر چلتے ہوئے پروڈیوسر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے۔ میرے تجربے میں، یہ ایک مستقل جدوجہد ہے جہاں آپ کو اپنے ضمیر اور ادارے کے مفاد کے درمیان توازن قائم کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہوتی ہے جہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔
س: اچھا تو پھر، اخلاقی فیصلے کرتے وقت انہیں کن کن بڑے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا یہ صرف ریٹنگز کا دباؤ ہوتا ہے یا اور بھی کچھ ہوتا ہے جو ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے؟
ج: یقیناً، ریٹنگز کا دباؤ تو ایک بہت بڑی حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میرے دوستو، یہ واحد چیز نہیں جو ہمارے پروڈیوسرز کے سر پر سوار رہتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب ایک پروڈیوسر کسی حساس موضوع پر کام کر رہا ہوتا ہے، تو اسے کئی اطراف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو چینل انتظامیہ کا دباؤ ہوتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ منافع اور شہرت چاہتے ہیں۔ پھر اشتہار دینے والے (سپانسرز) ہوتے ہیں، جو اکثر چاہتے ہیں کہ مواد ان کے برانڈ کے مطابق ہو، اور اگر کوئی چیز ان کے مفاد کے خلاف ہو تو وہ فوراً اپنے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔اس کے علاوہ، حکومتی اداروں کا دباؤ بھی ہوتا ہے، خاص طور پر سیاسی یا قومی اہمیت کے معاملات میں۔ اور ہاں، سب سے اہم، عوام کا دباؤ!
ہاں جی، یہ مت بھولیے کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اگر کسی مواد کو عوام نے پسند نہ کیا یا اسے “غلط” قرار دے دیا، تو وائرل ہونے میں دیر نہیں لگتی اور پروڈیوسر اور چینل دونوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سارے دباؤ مل کر ایک پروڈیوسر کے لیے اخلاقی طور پر صحیح فیصلہ کرنا بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ اسے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے، جیسے ایک رسی پر چلنے والا شخص۔
س: آخر میں، ایک بہت ہی اہم سوال۔ ان اخلاقی فیصلوں کا ہمارے معاشرے پر اور میڈیا کی ساکھ پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کیا یہ صرف ایک لمحاتی فیصلہ ہوتا ہے یا اس کے دور رس نتائج ہوتے ہیں؟
ج: یہ تو ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے۔ میں نے اپنے کیریئر میں یہ بارہا دیکھا ہے کہ ایک پروڈیوسر کا ایک چھوٹا سا اخلاقی فیصلہ بھی معاشرے پر بہت گہرا اور دیرپا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ اگر پروڈیوسر سچائی، توازن اور غیر جانبداری کو ترجیح دیتے ہیں، تو وہ لوگوں میں اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ عوام کو لگتا ہے کہ یہ میڈیا قابل بھروسہ ہے، یہ ہمیں صحیح معلومات دے گا، اور اس سے میڈیا کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ لوگ خبروں پر بھروسہ کرتے ہیں، معلومات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔لیکن، میرے دوستو، اگر اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا جائے، صرف سنسنی خیزی اور ریٹنگز کے پیچھے بھاگا جائے، تو اس سے میڈیا کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ لوگ خبروں پر شک کرنے لگتے ہیں، ہر چیز کو سازش سمجھنے لگتے ہیں۔ غلط معلومات (misinformation) اور غلط خبریں (disinformation) پھیلتی ہیں، جو معاشرے میں بے یقینی، بے چینی اور بعض اوقات تو نفرت کو بھی جنم دیتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ایک میڈیا پروڈیوسر کی ذمہ داری صرف انٹرٹینمنٹ فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ معاشرے کو درست رہنمائی فراہم کرنا بھی ہے۔ اس کے فیصلے صرف اس کی نوکری پر نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے شعور اور مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جسے ہر پروڈیوسر کو دل و جان سے نبھانا چاہیے۔






